امریکہ اور طالبان کے مابین امن معاہدہ طے پائے جانے کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ افغان باشندے اب امن کی فضا میں زندگی بسر کرسکیں گے. تشدد میں کمی اور جنگ بندی کی بھرپور توقع کی جا رہی تھی. افغان قوم کی جانب سے امن معاہدے سے قبل اور اب تک جنگ بندی اور تشدد میں کمی کا پرزور مطالبہ رہا ہے۔
تاہم گزشتہ سالوں کی طرح سال 2020 اور ھجری شمسی سال 1399 افغانستان میں پرتشدد رہا۔ دوحہ معاہدے کے بعد سے اگرچہ امریکی اور اتحادی افواج پر حملے نہیں ہوئے ہیں لیکن افغانستان کے اندر حملے تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔
افغان سکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں کے دوران ملک کے کم از کم 40 فیصد علاقوں میں سرکاری فوج اور طالبان کے مابین جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
افغانستان کے سابق نائب وزیر دفاع، شاہ محمود میاخیل نے گزشتہ دنوں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ: ‘1399 شمسی سال( 2020 ), افغان افواج کے لئے ایک مشکل سال تھا۔’
وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال میں افغان فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم 18,000 طالبان ہلاک ہوگئے ہیں. انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایسے وقت میں طالبان کا مقابلہ کر رہے تھے جب موسم سرما میں بھی لڑائی کی توقع نہیں تھی۔
( واضح رہے کہ وزارت دفاع کی جانب سے یہ دعویٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب حکومت کی جانب سے تشدد میں کمی اور جنگ بندی پر زور دیا جا رہا ہے .)
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وزارت دفاع کے اس دعویٰ کی سختی سے تردید کی۔
ایک سوال کہ , ‘طالبان امن معاہدے کے بعد سرکاری فورسز پر حملے کررہے ہیں، کے جواب میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ: ‘امن معاہدے کے بعد اب تک افغان فورسز کے قافلوں اور چوکیوں پر حملے ہم نے کم کردیے ہیں. تاہم افغان فورسز کی جن چوکیوں سے عوام کو نقصان پہنچایا جا رہا ہو ان کو ہم نے نشانہ بنایا ہے. باقی ہم دفاعی حالت میں جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔’
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ: ‘ہم نے امن معاہدے کی وجہ سے گزشتہ سال آپریشن کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا۔’
دوسری جانب طالبان کے سال 2020 میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے جاری کی گئی رپورٹ میں، عام شہریوں کی ہلاکتوں میں افغان فورسز، نیٹو اور امریکی افواج کو ملوث قرار دیا گیا ہے۔
طالبان کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق سال 2020 کے جنوری کے مہینے سے لے کر 16 دسمبر تک، 34 صوبوں میں مجموعی طور پر 1834 شہری ہلاکتوں کے واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں, جن میں 165 امریکی اور نیٹو افواج کے فضائی حملوں اور چھاپوں کی وجہ سے ہوئے ہیں. 1307 واقعات کی ذمہ داری افغان فورسز سے منسوب کی گئی ہے جب کہ 362 دیگر واقعات میں نامعلوم افراد کو ذمہ دار ٹہرایا گیا ہے۔
طالبان نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی، بیرونی فورسز اور افغان فورسز کی کاروائیوں میں 1916 عام شہری زخمی ہوئے ہیں۔
طالبان نے اپنی رپورٹ میں افغان حکومت اور فورسز پر کی گئی کارروائیوں میں سرکاری فورسز کی ہلاکتوں کی تعداد کا ذکر نہیں کیا ہے۔
گزشتہ پورے سال میں صرف 13 دن افغانستان میں جنگ بندی کی فضا رہی, جو امن معاہدے سے قبل 22 تا 28 فروری، عید الفطر اور عید کے الاضحیٰ کے تین دنوں کی صورت میں ہے۔
طالبان اور افغان حکومتی نمائندوں کے درمیان دوحہ میں بین الافغان امن مذاکرات گزشتہ سال 12 ستمبر سے جاری ہیں۔ تاہم ابھی تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ جب کہ طالبان اور حکومت کے مابین جنگ اسی طرح جاری ہے جس میں سویلین، میڈیا اور ہیومن رائٹس کے لوگ زیادہ تر نشانہ بنے ہیں۔
اقوام متحدہ کے افغانستان میں معاون مشن یونامہ نے افغانستان میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے گزشتہ سال 2020 کی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یکم جنوری تا 30 نومبر تک تشدد کے 7,850 واقعات سامنے آئے ہیں، جو 2,711 ہلاکتوں اور 5,139 زخمیوں کی صورت میں ہیں.
یونامہ کی رپورٹ میں تشدد کی 46 فیصد کاروائیوں میں طالبان کو ملوث ٹہرایا گیا ہے, جب کہ 6 فیصد کاروائیوں میں داعش اور 9 فیصد کاروائیوں کی ذمہ داری دوسرے حکومت مخالف عناصر پر ڈالی گئی ہے۔
یونامہ نے اپنی رپورٹ میں افغان فورسز اور حکومتی حمایت یافتہ اداروں کو بھی سویلین کے تشدد میں ملوث ٹہرایا ہے۔
رپورٹ کے مطابق تشدد کے 22 فیصد واقعات میں افغان فورسز اور 2 فیصد واقعات میں غیر ملکی افواج کو ملوث قرار دیا گیا ہے۔
طالبان نے یونامہ کی رپورٹ کو سختی سے رد کیا ہے. طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ: ‘یونامہ نے اپنی اس رپورٹ کو شائع کرنے سے قبل ہمارے ساتھ شریک کیا تھا. ہم نے حقائق پر مبنی تفصیلات ان سے شئیر کیں تاہم ہمارے خدشات اور معلومات کو رپورٹ میں مکمل نظر انداز کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ٹارگٹ کلنگ میں 35 فیصد اضافہ ہوا جو خاصا تشویشناک ہے. علماء کونسل کابل کے مطابق گزشتہ سال سے اب تک 90 علماء کرام کو دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ میں نشانہ بنایا گیا ہے۔
یکم اکتوبر 2020 تا 31 جنوری 2021 تک, ان چھ ماہ میں انسانی حقوق اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے گیارہ افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
افغان حکومت اور طالبان دونوں فریقین کی جانب سے تشدد میں کمی کے دعوے کۓ جا رہے ہیں۔ ماسکو کانفرس کے بعد طالبان کے سیاسی دفتر کے سابق ترجمان اور مذاکراتی ٹیم کے رکن سہیل شاہین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: ‘امریکہ سے معاہدے کے بعد ہماری کاروائیوں میں کمی آئی ہے. جو جنگیں لڑی جا رہی ہیں ان میں حملہ ہمیشہ دشمن کی جانب سے ہورہا ہے ہم صرف دفاعی حالت میں ہیں۔ ہم مذاکرات کے ذریعے جلد از جلد جامع معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں.’
تاہم دو طرفہ دعووں کے باوجود تشدد میں کمی نظر نہیں آرہی۔