عورت کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی ہوا کرتی ہے اور سماج کی ترقی و تنزلی، تنوع اور رنگا رنگی میں خواتین کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا ہے۔ بہت سے ماہرین بشریات انسانی تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی عورت ہی کے سر باندھتے ہیں کہ عورت کی دانائی ہی بیج اور فصلوں کی دریافت سے انسانوں کو غاروں کی تاریکی سے نکال کر تہذیب اور تمدن کی روشنی کی طرف لے آئی اور یوں سنگلاخوں کو زرخیز کرنے سے لے کر کہکشاؤں کی تسخیر اور نئی دنیاؤں کی دریافت تک کا ایک نہ رکنے والا سفر شروع ہوا جو کہ ہنوز جاری ہے۔ جدید دنیا کی ترقی میں بھی عورت نہ صرف افرادی قوت فراہم کر رہی ہے بلکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کار ہائے نمایاں سرانجام دے رہی ہے۔ الغرض مہذب معاشروں نے ہمیشہ سماجی ترقی میں خواتین کی شمولیت کو سراہا اور ان کے مثبت کردار کو تسلیم کیا ہے۔

افغانستان کی تاریخ پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو نظر آتا ہے کہ  افغان سرزمین خواتین کے حوالے سے بہت زرخیز رہی ہے۔ چونکہ افغانستان اپنی تاریخ میں عالمی سازشوں اور جنگوں کا میدان رہا جس کی دھول میں افغانستان کی سیاسی  و ثقافتی تاریخ میں خواتین کے نمایاں کارنامے اور خدمات پس منظر میں چلے گئے اور مورخین نے زیادہ تر جنگوں پر توجہ مرکوز رکھی۔ افغان خواتین کی تاریخ میں ایک نمایاں نام ملکہ گوہرشاد بیگم کا ہے جنہوں نے افغانستان کی سیاسی و ثقافتی ترقی میں نمایاں کردار کیا۔ رابعہ بلخی وہ پہلی خاتون  ہیں جنہوں نے جدید فارسی زبان میں شاعری کی اور شعری دنیا میں بہت نام کمایا۔ اسی طرح ملکہ ثریا طرزی (1919-1929) بہی خواتین کے حقوق اور ان کی تعلیم کیلئے اپنی نمایاں خدمات کی وجہ سے جانی جاتی ہیں۔ آج کے حالات میں بھی خواتین افغان معاشرے کا فعال اور متحرک جزو ہیں اور افغانستان کی سماجی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

آگست 2021 میں حکومت کی تبدیلی اور طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد بین اقوامی برادری کی جانب سے خواتین کے حقوق اور خصوصاً بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے بہت سے خدشات کا اظہار کیا گیا۔

اس کی ایک وجہ طالبان کی پچھلی حکومت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے سابقہ طالبان حکومت کی پالیسیاں بتائی جا رہی تھیں۔ طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد علاقائی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر افغانستان میں خواتین کے حقوق، آزادی اور بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا جا رہا تھا تاہم پچھلی حکومت کے برعکس افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت نے خواتین کے حقوق، حکومتی معاملات میں خواتین کی شمولیت، اہم عہدوں پر خواتین کی تعیناتی اور بچیوں کی تعلیم کے سلسلے میں ایسے اہم اقدامات اٹھائے ہیں جو کہ حوصلہ افزاء ہیں۔

طالبان کے موجودہ سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے واضح کر چکے ہیں کہ مرد اور عورت دونوں کو برابر کے حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ اپنے ایک اہم فتویٰ میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ عورت کو مرد کی جاگیر نہیں سمجھنا چاہئے اور کسی بھی عورت کو اسی کی رضامندی کے بغیر شادی پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے اپنے بیان میں افغان عدالتوں پر بھی خواتین کے وراثتی حقوق کو یقینی بنانے اور انصاف بہم پہنچانے پر زور دیا ہے۔

اس کے علاوہ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے اہم اداروں اور عہدوں پر خواتین کی تعیناتی بھی عمل لائی گئی ہے جو کہ خواتین کو مزید مضبوط کرنے اور سماجی تعمیر و ترقی میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے حوالے سے ایک اہم پیشرفت ہے۔ اس سلسلے میں اہم اقدام اٹھاتے ہوئے افغان عبوری حکومت ڈاکٹر ملالئی رحیم کو ملالئی میٹرنٹی ہسپتال میں ڈائریکٹر جبکہ ڈاکٹر آریان کو ڈائیریکٹر شہار آرا ٹیچنگ ہسپتال تعینات کر چکی ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے طالبان کی پچھلی حکومت کے برعکس موجودہ عبوری حکومت کے اقدامات خوش آئند ہیں۔ سیاسی مسائل اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے بند یونیورسٹیاں دوبارہ کھلنے لگی ہیں۔ زرائع کے مطابق ننگرہار یونیورسٹی کھلنے کے بعد 2300 میں سے اسی فیصد طالبات مختلف شعبہ ہائے علوم میں اپنی تعلیمی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر چکی ہیں۔ اس حوالے سے افغانستان کی عبوری حکومت نے طالبات کیلئے جلال اباد سے سفری سہولیات بھی مہیا کیں جو کہ بہت حوصلہ افزاء اقدام ہے۔

فغانستان میں بہت سے تعلیمی ادارے معاشی عدم استحکام اور مالی مسائل کی وجہ سے بند ہیں لہذا اس سنگین معاشی صورتحال کے پیش نظر بہت سی افغان خواتین رضاکارانہ طور پر پارکوں اور دیگر پبلک مقامات پر اپنی مدد آپ کے تحت بچیوں کی تعلیم و تربیت کیلئے اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ انہی باہمت خواتین میں سے ایک نام زینب محمدی کا ہے جو کہ “کتاب و قلم فاؤنڈیشن” کی بانی ہیں اور چھ سو افغان خواتین اور لڑکیوں کو مفت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کر رہی ہیں اور افغانستان کے روشن مستقبل کیلئے اپنے حصے کا چراغ جلا رہی ہیں۔

افغان طلباء و طالبات کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے اور ان کی پیشہ ورانہ مہارتوں کو مزید مہمیز کرنے کیلئے کابل میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے انگریزی زبان اور کمپیوٹر کے مفت کورسز بھی کرائے جا رہے ہیں جو کہ لائقِ تحسین ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے افغانستان کے طلباء و طالبات کےلئے مختص ایک ہزار  سکالرشپس کو بڑھا کر ڈیڑھ ہزار  کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند افغان طلباء و طالبات مستفیض ہونگے۔ پاکستان خیبر میڈیکل کالج کی ایک شاخ افغانستان میں بھی کھولنے کیلئے اقدامات کر رہا ہے جس سے افغان طلباء  و طالابت کیلئے افغانستان میں ہی جدید طبی علوم کے حصول میں بہت مدد ملے گی۔ برادر ملک افغانستان میں تعلیم کو فروغ دینے کیلئے کابل میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے شروع کئے گئے انگریزی اور کمپیوٹر کے کورسز کا دائرہ کار افغانستان میں موجود چاروں پاکستانی قونصلیٹوں تک بڑھایا جاسکتا ہے جس سے افغانستان کے دور دراز شہروں کے طلباء و طالبات کو بھی جدید علوم سے  استفادہ کرنے کا بھرپور موقع ملے گا۔ پاکستانی سفارتخانے اور چاروں قونصلیٹوں کے زیر اہتمام افغانستان کے طالبات اور عام نوجوانوں کو فنی مہارتوں اور تکنیکی صلاحیتوں سے لیس کرنے کیلئے ٹریننگ اور ورکشاپس کا انعقاد بھی کیا جا سکتا ہے جس سے نہ صرف افغانستان میں بےروزگاری کے خاتمے اور انسانی بحران پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ ہنرمند افغان شہری افغانستان کی تعمیر ِ نو میں ایک فعال کردار ادا کرنے کے بھی قابل ہوسکتے ہیں۔

ایک صحتمند اور فعال معاشرے کی تشکیل کیلئے تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ دیگر شعبہ ہائے فنون میں بھی خواتین کیلئے شرکت کے یکساں مواقع ضروری ہیں۔ حال ہی میں افغانستان میں عبوری حکومت کی تشکیل کے بعد پہلی بار مغربی صوبے ہیرات کے دارالحکومت میں خواتین فنکاروں کی جانب سے اپنے فن پاروں اور شاہکاروں کی نمائش کیلئے ایک خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں خواتین فنکاروں نے اپنے فن پاروں کو نمائش کیلئے پیش کیا۔ یہ خواتین فنکار افغانستان کی دوسری خواتین کو بھی فنون کے میدان میں آگے بڑھنے اور ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے ترغیب دیتی ہوئی نظر آئیں۔ اس سے بھی اہم پیشرفت یہ ہے کہ طالبان کی صوبائی حکومت کے حکام کی جانب سے نہ صرف اس نمائش کو سراہا گیا بلکہ ایسی تقاریب کیلئے ہر ممکنہ تعاون کی بھی یقین دہانی کرائی گئی۔ افغانستان میں خواتین کے حقوق اور سماجی تعمیر و ترقی میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے حوالے سے ایسے مثبت اقدامات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔

تاریخی و ثقافتی اعتبار سے دیکھا جائے تو خواتین سے متعلق کچھ ایسے  ثقافتی امور افغانستان کی ثقافتی تاریخ کا حصہ رہے ہیں جو کہ آج کی دنیا کے جدید اخلاقی تصورات، و اقدار کے منافی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی شمار ہوتے ہیں۔ حال ہی میں ایسی ثقافتی سرگرمیوں کے خاتمے اور خواتین کے حقوق کی بحالی کے سلسلے میں نہایت اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ افغان عبوری حکومت کی جانب سے منعقدہ ایک اہم جرگے میں ایک متفقہ بل منظور کیا گیا ہے جس میں خواتین کے وراثتی حقوق کو یقینی بنانا، بیواؤں کی شادی کیلئے رضامندی کو لازمی قرار دینا، جہیز کے حقوق سمیت دیگر بہت سی غیر انسانی ثقافتی سرگرمیوں پر پابندیاں شامل ہیں۔ بلاشبہ یہ اقدام افغان خواتین کے حقوق کی بحالی کی جانب ایک مثبت اور حوصلہ افزاء قدم ہے۔

افغانستان میں تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی لئے اقدامات تیز تر کرتے ہوئے موجودہ عبوری حکومت نے حال ہی میں جماعت اول تا ششم کیلئے نئے تعلیمی منصوبے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق بچوں اور بچیوں کیلئے الگ الگ اور مختلف اوقات میں کلاسز کے اجرا ٰء کا اعلان کیا گیا ہے۔ بچیوں کیلئے خواتین اساتذہ جبکہ بچوں کیلئے مرد اساتذہ مختص کئے گئے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت طلباء و طالبات کے ملبوسات کو افغان تہذیب وثقافت سے ہم آہنگ کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی سے دوچار افغانستان میں مشکلات کے باوجود خواتین کے حقوق اور تعلیم کے لئے ایسے اقدامات نہایت حوصلہ افزاء ہیں۔ افغانستان میں خواتین کو مزید باختیار بنانے، تعلیمی اداروں کو کھولنے اور دوبارہ بحال کرنے کیلئے وسائل اور بین الاقوامی برادری کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ معاشی عدم استحکام اور انسانی بحران کی اس گھڑی میں امریکی صدر کے 3.5 بلین ڈالر کے افغان اثاثوں کو منجمد رکھنے کا فیصلہ افغانستان کو مزید مسائل سے دوچار کرسکتا ہے۔ حال ہی میں کابل میں افغان خواتین کی جانب سے اقوام متحدہ کے دفتر کے قریب احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا ہے جس میں افغان خواتین نے امریکی عدالتوں پر زور دیا ہے کہ وہ صدر بائڈن کے افغان اثاثوں کو منجمد رکھنے کے فیصلے کو مسترد کریں۔

افغانستان میں خواتین کے حقوق کی بحالی کے اقدامات ، تعلیمی سرگرمیوں کو دوبارہ بحال کرنے اور موجودہ انسانی بحران سے نمٹنے کیلئے علاقائی اور بین الاقوامی برادری کو سامنے آنے اور علاقائی امن و سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ختم شد

Previous articlePak-Afghan: A lot to Gain from Cooperation!
Next articleBuzkashi: Quetta Welcomed Spring With a Friendly Match
Nasir Ansari is currently doing his graduation in International Relations from National Defence University Islamabad. His areas of interest for study are politics, Philosophy, History and Literature. He is an elegant poet and active writer, currently serving as Deputy Secretary-General of Matla-eAdab Pakistan, a representative literary organization of Pakistan's young poets and writers. He is also a good orator and debater and has won several debate and declamation contests at the national level. He has also hosted several programs at Hadi TV and occasionally appears on different TV channels discussing a variety of subjects. He is also a Hafiz e Quran with good organizational skills and has organized many public gatherings and seminars at the national level to promote awareness about Quranic teachings.

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here